Skip to main content

ہم سب کا خان صاحب *اشرف خان*

 


تحریر سعید جان بلوچ

جس طرح اداکار محمد علی فلمی دنیا میں اپنی اداکاری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اسی طرح سندھ کے بڑے شہر حیدرآباد سے براستہ اسلام آباد کراچی آنے والے نامور صحافی اشرف خان انگریزی صحافت میں ایک بڑے صحافی کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں ۔حیدرآباد کے پوش علاقے لطیف آباد میں جنم لینے والے اشرف خان نے سندھ یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد صحافت کے میدان کا انتخاب اس لیے کیا کہ وہ اپنی رائے کی اظہار کی آزادی چاہتے تھے وہ جس وقت سندھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اس وقت ایم۔کیو۔ایم ایک نئی مضبوط سیاسی جماعت بن کر ابھر رہی تھی حیدرآباد کے نوجوان تیزی سے ایم۔کیو۔ایم کی جانب راغب ہو رہے تھے اشرف خان کے دوستوں نے کافی کوشش کی کہ وہ کسی طرح ان کو بھی "ساتھی بھائی" بنالیں لیکن اشرف خان کی منزل "جی بھائی "نہیں بلکہ مظلوم و محکوم لوگوں کی کے لئے ایک آواز بلند کرنا تھا جس کے لئے انہوں نے سیاست کے بجائے صحافت کے میدان کا انتخاب کیا ۔
ممتاز پاکستانی فلمی اداکار محمد علی اور اشرف خان میں قدر مشترک بات یہ ہے کہ دونوں دراز قد اور ایک ہی شہر سے تعلق رکھتے ہیں ۔
اداکار محمد علی کی طرح اشرف خان کی آواز بھی گرجدار ہے اگر وہ ریڈیو کی طرف آتےتو وہ کامیاب صدا کار ہو سکتے تھے ۔
1990 میں انہوں نے حیدرآباد سے نکل کر اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا جہاں انہوں نے پاکستان ٹائمز میں ملازمت اختیار کی اس کے بعد معروف تجارتی روزنامے بزنس ریکارڈر کا حصہ بنے وہ اسلام آباد کی سرد اور سنسان راتوں سے جلد اکتا گئے اور یہ کہہ کر اسلام آباد سے کراچی کا رخت سفر باندھا کہ
* یہ سرد رات ، یہ تنہائی یہ آوارگی کا بوجھ *
*ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے*
1995 میں وہ کراچی منتقل ہوگئے جو ان کا اب مستقل مسکن بن چکا ہے کراچی آنے کے بعد اشرف خان جو اکنامکس کے اچھے طالب علم تھے اس لئے جلد بزنس ریکارڈر کے لیے وہ ایک اہم رپورٹر بن چکے تھے انگریزی زبان پر عبور کی وجہ سے وہ بین الاقوامی اخبارات کی توجہ کا مرکز بنے 2001 میں انہوں نے فرانس کی نیوز ایجنسی AFPمیں ملازمت کی پیشکش قبول کرلی 2007 میں وہ امریکی نیوز ایجنسی AP میں شامل ہوگئے تاہم 2012 میں انہوں نے الیکٹرک میڈیا میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور نیوز ون چینل میں ڈائریکٹر نیوز کے عہدے پر کام کرنے لگے لیکن جلد ہی 2013 میں AFP نے ان کو دوبارہ کراچی کے بیورو چیف کے عہدے پر پیشکش کی جو انہوں نے قبول کرلی اور آج تک اسی ادارے سے منسلک ہیں ۔اس کے علاوہ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے بھی فری لانس خدمات انجام دیتے رہے ہیں
2005 میں آنے والے زلزلے کی کوریج کے لیے اشرف خان ایک ماہ سے زائد عرصے تک آزاد کشمیر ، مظفر آباد ، بالا کوٹ ، مانسہرہ میں رہے جہاں ان کی رپورٹنگ کے جوہر کھل کر سامنے آئے جبکہ 2010 میں سندھ میں آنے والے سیلاب کے دوران بھی انہوں نے انتہائی ذمہ داری اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیئے ۔
18 اکتوبر 2007 میں طویل جلا وطنی کے بعد پاکستان واپس آنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کی فقیدالمثال استقبال کی کوریج سے لے کر سندھ بھر میں ان کے قیام کےآخری دنوں تک وہ اس میں ان کے ساتھ رہے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کئے گئے ان کے انٹرویو اور زندگی کے آخری ایام کے حوالے سے ان کی رپورٹنگ کا معیار اپنی بلندی پر نظر آیا انہوں نے لاڑکانہ سے کراچی آتے ہوئے جہاز میں ان کا تاریخی انٹرویو کیا اور اس کی تصویر نےوائرل ہونے کے بعداشرف خان کو اکنامکس کے ساتھ ساتھ ایک بڑے پولیٹیکل رپورٹر کے روپ میں پیش کیا ۔
اشرف خان کےساتھ میری ملاقاتوں کا سلسلہ مشترکہ دوست معروف صحافی بلوچستان کے سیاسی امور کے ماہر عزیز سنگھور کے ذریعے ہوا اور جلد ہی ہمارے درمیان مضبوط دوستانہ تعلقات قائم ہوگئے کراچی پریس کلب کے سامنے ہی واقع ان کا دفتر ہے ہم سب دوستوں خصوصاگرمیوں کے موسم میں اس کا سرد دفتر معروف صحافی ،اینکر اور کالم نگار وسعت اللہ خان ،جیو ٹی وی کے عقیل رانا اور میرا ڈیرہ ہے۔جہاں پر آرام کے ساتھ ہمیں بلامعاوضہ چائے،کافی گرین ٹی اور کبھی کبھی لنچ بھی مل جاتا ہے۔
اشرف خان کراچی پریس کلب اور صحافیوں کی تنظیم پی ایم یوجے کی سرگرمیوں میں بھی کافی حصہ لیتے رہے ہیں ،وہ کراچی یونین آف جنرنلسٹس کے یو جے کے صدر بھی رہے اسی حیثیت میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر مدعو کیا ،اسی حوالے سے یہ اعزاز اشرف خان کو جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کراچی میں صحافیوں کے کسی پروگرام میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی ہو۔
اشرف خان کو ہم ہمیشہ اپنی صحافی تنظیم کی جانب سے عہدوں کی پیش کش کرتے رہے لیکن وہ ہمیشہ اپنی مصروفیت کو جواز بناکر انکار کردیتے لیکن انہوں نے اچانک کے یو جے کے دوسرے گروپ کی جانب سے صدارت کا عہدہ قبول کرلیا اس بات کا شکوہ ہمیں خان صاحب سے ہمیشہ رہے گا۔
اشرف خان خوش شکل اور بلند دراز قد کی وجہ سے کافی اسمارٹ لگتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں صنف مخالف کو اپنا گرویدہ بنانے میں ہمیشہ ناکام رئیں ہیں خاص طور پر سردی کےموسم وہ اپنے جمال کے عروج پر ہوتے ہیں کیونکہ اس میں وہ اکثر کوٹ پہنتے ہیں جس سے ان کی شخصیت اور متاثر کن ہوجاتی ہے خان صاحب کراچی کی مختلف یونیورسٹیوں میں اعزازی لیکچرار ہیں یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات ان کی محسورکن آواز میں دیئے جانے والے لیکچر کو انتہائی انہماک کے ساتھ سنتے ہیں
۔اشرف خان کراچی کے علاقے پی سی ایچ ایس سوسائٹی میں ایسی جگہ رہائش پزیر ہیں جہاں ان کی بالائی منزل پر ان کا سسرال واقع ہے اس لیے اپنے ذاتی گھر میں ہونے کے باوجود اپنے دوستوں کو یہ بات باور نہیں کراسکے ہیں کہ وہ اپنے سسرال میں رہائش پذیر نہیں ہیں ۔خان صاحب کے دو بیٹے فائز خان اور سعد خان ہیں جو قد میں خان صاحب سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں وہ اس وقت محمد علی جناح یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں ۔ان کی ایک ہی بیٹی جمینہ ہے جو ڈاکٹر بننا چاہتی ہے جو خان صاحب کا بھی خواب ہے ضرور پورا ہوگا۔
اشر ف خان ٹھنڈے مزاج کے ہونے کے باوجود کبھی کبھی اپنے رعب دار شخصیت کا استعمال کرلیتے ہیں ۔وہ دلیل کے ساتھ قائل ہونے اور کرنے کے فارمولے پر عمل کرتے ہیں۔اشرف خان کی اہلیہ ایک پڑھی لکھی خاتون خانہ ہیں جو صوم و صلوة کی پابند ہیں ۔رمضان المبارک میں خان صاحب کے گھر میں سب روزے سے ہوتے ہیں لیکن خان صاحب کیونکہ دل کا آپریشن بھی کراچکے ہیں اس لئے ڈاکٹر نے انہیں روزہ رکھنے سے منع کیا ہوا ہے۔جس پر وہ سختی سے عمل کرتے ہیں البتہ وہ سگریٹ ضرورپیتے ہیں جس کا ڈاکٹروں نےسختی منع کیا ہواہے۔
اشرف خان ہم سب دوستوں کے خان صاحب ہیں دنیا بھر کے اخبارات اور ٹی وی چیلنزمیں ان کی اسٹوریز شائع اور نشر ہوتی ہیں لیکن اس کا کریڈیٹ اشرف خان کو نہیں بلکہ ان کے ادارے اے ایف پی کو ملتا ہے۔متعدد مرتبہ ان کے ادارے نے ستائشی خطوط کے زریعے ان کی خدمات کو سراہا ہے۔ہماری دعا ہے کہ خان صاحب قد کی بلندی کے ساتھ صحافت کے میدان میں بھی شہرت اور عزت کی بلندی کو چھوتے رہیں۔




Comments

Popular posts from this blog

نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرِ صدارت انسداد پولیو کیلئے نیشنل ٹاسک فورس کا اجلاس

  پولیو کے ملک سے مکمل خاتمے کیلئے معاشرے کے ہر طبقے کو اس قومی فریضے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا. وزیرِ اعظم ملک کے بچوں کے محفوظ اور صحتمند مستقبل کیلئے ہر کسی کو اس مقدس مشن کا حصہ بننا ہوگا . وزیرِ اعظم علماء، اساتذہ، والدین اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو انسداد پولیو کی آگہی مہم کا حصہ بنایا جائے. وزیرِ اعظم کی ہدایت انسداد پولیو مہم کے دوران پولیو ورکرز کی سیکیورٹی یقینی بنائی جائے. وزیرِ اعظم کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت. ملک میں پولیو کے کیسز میں نمایاں کمی آئی ہے مگر ملک سے اس موذی مرض کے جڑ سے خاتمے تک ہم اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھیں گے. وزیرِ اعظم قوم کیلئے سب سے بڑا خوشی کا دن وہ ہوگا جب ملک کا بچہ بچہ اس خطرناک مرض سے مکمل طور پر محفوظ ہوگا. وزیرِ اعظم یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تمام علماء کرام بشمول امام کعبہ نےبھی پولیو سے بچاؤ کے قطروں کو بالکل محفوظ اور بچوں کے معذوری سے پاک مستقبل کیلئے انتہائی ضروری قرار دیا ہے. وزیرِ اعظم وزیرِ اعظم کا ملک کے تین اضلاع میں پولیو وائرس کی موجودگی پر اظہار تشویش. جن اضلاع میں پولیو وائرس کی موجودگی کی اطلاع ہے وہاں خصوصی انسداد پولیو